Pages

Tuesday, August 15, 2006

Allao Urdu Novel By M.Mubin Part 13


٭تیرھواں باب
دن بھر رات بھر وحشت کا ننگا ناچ جاری رہا۔ جوہولناک واقعات وہ اپنی آنکھوں سےدیکھ رہا تھا۔ اس سےبھی زیادہ وحشت ناک واقعات ہوتےتھےجن کو سن کر کلیجہ کانپ اٹھتا تھا۔ رات سناٹےکو چیر کر بےبسوں کی دردبھری چیخیں فضا کےسینےمیں دفن ہوتی رہیں۔ دھوئیں کےبادل سارےگاو
¿ں کو اپنی لپیٹ میں لیےرہی۔ جگہ جگہ سےآگ کی لپٹیں اٹھتی دکھائی دےرہی ۔رات بھر وہ سونہیں سکا۔گیلری میں کھڑا اندھیرےمیں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر گاو
¿ں کو دیکھتا رہا۔ کبھی دل گھبرا جاتا تو آکر بستر پر لیٹ جاتا۔ لیکن پھر بھی نیند آنکھوں سےکوسوں دور تھی۔ اس نےزندگی میں ایسا منظر پہلی بار دیکھا تھا۔ اس نےاپنےبزرگوں سےایسےمناظر کی کہانیاں سنی تھیں۔ لیکن یہ مناظر تو ان سےبھی زیادہ ہولناک تھی۔ انسانوں کی جان لینےکےلیےایسےایسےوحشیانہ طریقوں کا استعمال کیا گیا تھا ۔ جن کےبارےمیں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ پو ٹھنےکےبعد بھی دھماکی، چیخیں گونجتی رہی۔ وہ بستر پر لیٹا تھا۔ اچانک دروازےپر دستک ہوئی۔ دستک سن کر اس کا دل دہل اٹھا۔ ایسےماحول میںایسےماحول میں کون اس سےملنےکےلیےآسکتا ہے؟ کانپتےدل سےاس نے دروازہ کھولا تو دروازےمیں مدھو کو کھڑی دیکھ کر اس کا دل دھک سےرہ گیا۔ ”مدھو تم ؟ اس وقت یہاں ؟“مدھو نےکوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اندر آئی اور اپنےدونوں ہاتھوں سےاپنا منہ چھپا کر پھوٹ پھوٹ کر رونےلگی۔ ”مدھو کیا بات ہےکیا ہوا ؟ “وہ مدھو کوروتا دیکھ کر گھبرا گیا۔ اور اس سےپوچھنےلگا۔ مدھو نےاس بار بھی اس کی کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ اور اپنا چہرہ اپنےہاتھوں سےچھپاتےدہاڑےمار مار کر روتی رہی۔ ”مدھو کیا بات ہےتم بتاتی کیوں نہیں ؟ “ مدھو کا رونا دیکھ کر اس کےدل کی دھڑکنیں بڑھتی جارہی تھیں ۔اور آنکھوں کےسامنےااندھیرا چھاتا جارہا تھا۔ ”تم اس وقت ایسےحالات میں یہاں آئی ہو؟ تمہیں ایسےحالات میں تو اپنےگھر سےبھی باہرنہیں نکلنا چاہیےتھا۔ سارا گاو
¿ں وحشیوں سےبھرا پرا ہے۔سارا گاو
¿ں وحشی درندہ بن گیا ہی۔ کسی کو کسی کا ہوش نہیں ہی۔ “”جمی ....میں لٹ گئی.... میں برباد ہوگئی ۔میں کسی کو منہ دکھانےکےقابل نہیں رہی۔ ایک درندےنےمجھےکسی قابل نہیں چھوڑا ۔“وہ زورزور سےدہاڑےمارمار کر رونےلگی ۔اس کےدل کی دھڑکنیں تیز ہوگئیں ۔اور آنکھوں کےسامنےکا اندھیرا کچھ زیادہ ہی گہرا ہوگیا۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا مدھو کیا کہہ رہی ہی۔ یا کیا کہنا چاہتی ہی۔”مدھو تم کیا کہہ رہی ہو۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہی۔ “”جمی ....مجھےمہندر نےبرباد کردیا۔ اس نےمیرےساتھ ریپ کیا ہی۔ میری عصمت دری کی ہی۔ یہ کہہ کرکہ اب میں تمہارےقابل نہیں رہوں گی ۔اس کےبعد تم میری طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھو گی۔ “ مدھو روتی ہوئی بولی۔اسےایسا محسوس ہوا جیسےکسی بارود خانےکی سادی بارود اس کےدماغ میں پھٹ پڑی ہی۔ ساری گاو
¿ں میں لگی آگ اس کےوجود میں آکر سماگئی ہی۔ اس کےذہن میں مسلسل دھماکےہورہےتھی۔ اور وجودجل رہا تھا۔ آنکھیں دہک رہی تھیں۔ اور ان دہکتی آنکھوں سےوہ اس منظر کو دیکھ رہا تھاجسےمدھو نےبیان کیا تھا۔ ”جمی .... مہندر بہت کمینہ ہی۔ سارےگاو
¿ں میں اس نےآگ لگائی ....ہر ذلیل گھناو
¿نا کام کیا ....اور آخر میں مجھےبھی نہیں چھوڑا ۔میرےماں باپ کو اس نےایک کمرےمیں بد کردیا اور اوپر چلا آیا۔ میں بہت چیخی چلائی ۔میں نےمدد کےلیےسارےگاو
¿ں کا بلایا ....لیکن جب سارا گاو
¿ں چیخوں میں ڈوبا ہو ....ہر کوئی مدد کو بلارہا ہو تو پھر کون میری مدد کو آئےگا؟ میرےماں باپ بےبسی سےمیرےلٹنےکا تماشہ دیکھتےرہے۔جب سینکڑوں عصمتیں لٹی ہو۔ اگر میری بھی لٹی تو اس سےکسی کوکیا فرق پڑتا ہی۔ اس ذلیل کا ایک ہی مقصد تھا تم یہ سب جاننےکےبعدمجھےٹھکرادو ۔ میراغرور ٹوٹ جائےمیں دنیا کو منہ دکھانےکےقابل نہ رہوں۔ میں اس کی نہ ہوسکی تو تمہاری بھی نہ ہوسکوں ۔“ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کچھ لمحوں قبل تک وہ اتنےجوش اور غصےمیں بھرا تھا کہ اس کا دل چاہ رہا تھاوہ ابھی مہندر کےگھر پہنچ جاتےاور اپنی کرپان سےمہندر کےٹکڑےٹکڑےکردی۔ لیکن پھر جیسےاس پر برف پڑگئی۔ وہ مدھو کےآنسوو
¿ں کو دیکھ رہا تھا۔ اس کےچہرےپر تھرکتی بےبسی کو دیکھ رہا تھا۔ مدھو کےآنسودیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آرہا تھا۔ اس کےچہرےکی بےبسی اس پر ہوئےظلم کی داستان سنارہی تھی۔ ایک عورت کی عصمت اس کا سب سےقیمتی زیور ہوتی ہےوہ اس گہنےکو ساری دنیا سےبچاکر رکھتی ہی۔ اپنےمحبوب ،اپنےشوہر پر نچھا ور کرنےکےلیے،ایک عورت کےلیےاپنےدیوتاکےقدموں میں چڑھاوا چھڑانےکےلیےاس سےبڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ اگراس سےاس کا وہی قیمتی زیور کوئی زبردستی اس چھین لےتو اس عورت کےدل پر کیا گذرےگی ۔اس کا اندازہ لگانا دنیا کےکسی بھی مرد کےلیےبہت مشکل کام تھا ۔لیکن وہ مدھو کےدرد کو محسوس کررہا تھا۔ اسےخود لگ رہا تھا اس سےاس کی سب سےقیمتی چیز چھین لی گئی ہی۔ اس کی جو زندگی کا حاصل تھا وہی حاصل اس سےچھین لیاگیا ہی۔ وہ اپنےآپ کو مدھو کی طرح بےبس محسوس کررہا تھا۔ جذبات سےمغلوب اٹھا اور اسےاپنےآپ پر قابو رکھنا مشکل ہوگیا۔اور وہ بھی مدھو کی طرح اپنےدونوں ہاتھ سےاپنا چہرہ چھپا کر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ رونےلگا۔ اسےروتا دیکھ کر مدھو کا بھی دل بھر آیا اور وہ بھی دہاڑیں مارمارکر رونےلگی۔ اور شدت جذبات سےبےقابو ہوکر اس سےلپیٹ گئی۔ اور وہ دونوں ایک دوسرےسےلپٹےرونےلگی۔ ایک دوسرےسےلپٹےپتہ نہیں وہ کتنےدیر تک روتےرہی۔ مدھو کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ اور اس کا گلا رندھ گیا۔ اس کی بھی ہچکیاں بندھ گئی اور گلا بھر آ یا ۔ کافی دیر کےبعد وہ ایک دوسرےسےالگ ہوئےاور دو کونوں میں بیٹھ کر بےوجہ کبھی چھت اور کبھی فرش کو دیکھتےپتہ نہیں کیا کیا سوچنےلگی۔دنوں ایک دوسرےسےنہ کوئی بات کررہےتھےاور نہ ایک دوسرےکی طرف دیکھ رہےتھی۔ نہ ان کےمنہ سےایک لفظ نکل رہا تھا۔ سسکیاں رک گئی تھیں۔ گلا رندھا ہوا تھا۔ لیکن آنسو رکنےکا نام نہیں لےرہےتھی۔ بہت دیر بعد وہ بولا ”مدھو ....حالات بہت خراب ہی۔ ایسےحالات میں تمہاری جیسی لڑکی کا گھر سےباہر نکلنا ٹھیک نہیں ہے۔ایک درندےمہندر کےہاتھوں تم تباہ تو ہوئی ہو۔ چاروں طرف ہزاروں مہندر بکھرےہوئےہیں۔ہر آدمی مہندر کی طرح جانور بن گیا ہی۔ جس طرح مہندر نےدرندگی کا مظاہرہ کرکےحالات کا فائدہ کر اپنےمن کی مراد حاصل کرلی ہی۔ میں نہیں چاہتا ہوں کہ کوئی اور مہدر کی طرح حالات کا فائدہ اٹھاکر تم سےاپنےدل کی مراد پوری کرلی....تم گھر جاو
¿۔ اس طوفان کو تھمنےدو اس کےبعد سوچیں گےکہ حالات کا کس طرح مقابلہ اور سامنا کرنا ہی۔ اور ہمیں اب کیا کرنا ہی۔ “”جمی ....یہ میری تم سےآخری ملاقات ہی۔ ابمیں کبھی تم سےسامنا نہیں کروں گی۔ تم مجھےبھول جاو
¿....میرا خیال بھی اب دل میں نہیں لانا۔سوچنا تمہاری زندگی میں کوئی مدھو نام کی لڑکی آئی ہی نہیں تھی۔ میرےپیچھےاپنی زندگی برباد نہیں کرنا۔ کسی اچھی سی لڑکی سےشادی کرکےاپنا گھر بسا لینا۔ “سسکتی ہوئی مدھو بولی۔”یہ کیا کہہ رہی ہو....مدھو “وہ تڑپ اٹھا ”تم میری روح ہو ....میری جان ہو.... تمہارےبغیر میں اپنی زندگی کاتصور ہی نہیں کرسکتا ۔نہیں ....نہیں دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ایک دوسرےسےجدا نہیں کرسکتی۔ یہ طوفان تو ایک معمولی ہواکا جھونکا تھا۔ جو گذرگیا یہ طوفان تو دور اس طرح کےہزاروں طوفان بھی ہمیں اےدوسرےسےجدا نہیں کرسکتے۔تم میری ہو....میری رہو گی ....ہر حال میں ....ہر حال میں.... “”نہیں جمی ....اب میں تمہاری نہیں ہوسکتی.... میں تمہارےقابل نہیں ہوں۔ مجھےبھول جاو
¿....مجھےبھول جاو
¿....“کہتی سسکتی ہوئی مدھو اٹھی اور تیزی سےکمرےکےباہر نکل گئی۔ وہ اسےآوازیں دیتا رہ گیا۔ اور وہ اس کی نظروں سےاوجھل ہوگئی۔ گیلری میں آیا تو اس نےدیکھا ....وہ سسکتی گاو
¿ں کی طرف جارہی ہی۔ لمحہ بہ لمحہ اس سےدور ہوتی جارہی ہی۔ اوپھر اس کی آنکھ سےاوجھل ہوگئی۔


Contact:-
M.Mubin
http://adabnama.tripod.com
Adab Nama
303-Classic Plaza,Teen Batti
BHIWANDI-421 302
Dist.Thane ( Maharashtra,India)
Email:-adabnama@yahoo.com
mmubin123@yahoo.com
Mobile:-09372436628
Phone:-(02522)256477









 
Copyright (c) 2010 Allao Urdu Novel by M.Mubin Part 13 and Powered by Blogger.